حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشرقی آذربائيجان صوبے کے دس ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کانفرنس کا اہتمام کرنے والے منتظمین نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات 6 دسمبر 2023 کو ہوئی جس میں خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ ہدایات دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کی یہ تقریر 14 دسمبر 2023 کو کانفرنس ہال میں دکھائی گئی۔(۱)
خطاب حسب ذیل ہے؛
بسماللّہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے رہنا معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید
میں اس ضروری اور بہت مفید کام کا بہت شکر گزار ہوں جسے آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں نے انجام دیا اور آذربائيجان اور تبریز کے شہیدوں کے نام اور ان کی یاد کو، جو یقینی طور پر ناقابل فراموش ہے، آپ نے زیادہ اعلی سطح پر اور زیادہ واضح انداز میں پیش کیا، یہ بہت ہی اچھا اور مناسب اقدام ہے۔ البتہ خراج عقیدت پیش کرنے کی پچھلی کانفرنس، جو کئي سال پہلے منعقد ہوئي تھی اور اس کانفرنس کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ ہو گيا، مناسب ہوگا کہ اس طرح کے اقدامات اور خراج عقیدت پیش کرنے کی کانفرنسیں، یاد منانے کے پروگرام جلدی جلدی دوہرائے جائیں، جس طرح سے کہ ہم ہر سال محرم میں شہدائے کربلا کی یاد مناتے ہیں، اس وقت مثال کے طور پر تیرہ سو سال ہو گئے ہیں اور یہ کام ہر سال دوہرایا جاتا ہے لیکن یہ دوہرایا جانا، تھکانے والے کاموں کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ معاشرے اور ہمارے آج اور کل کے لیے ضروری اور مفید کاموں میں سے ہے۔
خود پر نگرانی رکھنا، ہر شخص، قوم اور گروہ کے لیے ضروری
تبریز اور آذربائیجان کے بارے میں تعریفی باتیں کم نہیں ہیں، ہم نے بھی ہر سال آپ کے ساتھ اپنی سالانہ ملاقات میں، مسلسل اس سلسلے میں بات کی ہے۔ شہیدوں کے بارے میں آج کی اس نشست میں محترم امام جمعہ اور سپاہ کے محترم کمانڈر نے جو باتیں بھی کہی ہیں وہ بہت اچھی اور مکمل تھیں، وہ ساری سفارشیں جو ہم عرض کرنا چاہتے ہیں اور عام طور پر عرض کرتے ہیں، ان پر بحمد اللہ آپ حضرات کی توجہ تھی اور ان میں سے بہت سی باتوں پر آپ نے عمل بھی کیا ہے۔ میں بس اتنا عرض کروں کہ ہماری ایک ذمہ داری یہ ہے کہ خود پر، اپنے آپ پر نظر رکھیں۔ قوم اپنے تشخص کو فراموش نہ کرے، اگر اس نے اپنے تشخص کو بھلا دیا تو وہ نقصان اٹھائے گي، اسے چوٹ پہنچے گي، وہ پچھڑ جائے گي۔ خداوند عالم ان لوگوں کے بارے میں جو اس کی یاد کو بھلا چکے ہیں، فرماتا ہے: "نَسُوا اللَّہَ فَاَنساھُم اَنفُسَھُم"(2) انھوں نے خدا کو بھلا دیا، خدا نے انھیں خود ان ہی کی طرف سے غافل کر دیا اور انھیں ان کی طرف سے فراموشی میں مبتلا کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود پر توجہ، اپنے تشخص پر توجہ، اپنی خصوصیات پر توجہ، ہر شخص، ہر قوم اور ہر گروہ کے لیے ایک ضروری کام ہے۔
صوبۂ آذربائيجان، ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل، بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ
آذربائیجان کو اس تشخص پر، جس نے اسے ممتاز بنا رکھا ہے، پوری توجہ رکھنی چاہیے۔ حقیقی معنی میں، جس علاقے کو ہم "آذربائيجان" کہتے ہیں، وہ ایرانی قوم کے درمیان ایک ممتاز تشخص کا حامل ہے۔ آذربائيجان بہادروں اور شہیدوں کا گہوارہ ہے۔یہ چیز مقدس دفاع سے مختص نہیں ہے، پہلے سے ہی ایسا رہا ہے، اب بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں تک اسلامی انقلاب کی بات ہے، اگر ہم حساب کرنا چاہیں، انقلاب سے پہلے، یعنی امام خمینی اور ایرانی قوم کی تحریک کے آغاز سے، آذربائیجان میں شہادت کا کردار اور شہادت کا آہنگ شروع ہو چکا تھا جو اب تک ہے۔ دفاع حرم میں آذربائيجان کے خطے کے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ البتہ ان قربانیوں کا نقطۂ عروج اور آذربائيجان کی اس اعلی قدر کے مظاہرے کا نقطۂ عروج، مقدس دفاع تھا اور یہی شخصیات جن کا جناب نے نام لیا: شہید آقا مہدی باکری، شہید حمید باکری، شہید تجلائي، شہید یاغچیان یہی نمایاں افراد تھے جو شہید ہوئے، ان میں سے بہت سے عزیز اور نمایاں افراد بحمد اللہ آج بھی حیات ہیں، یعنی شہادت پسندی اور ایثار و فداکاری کی یہ خصوصیت مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے سے لے کر آج تک جاری رہی ہے۔ اس شہر کے دو امام جمعہ شہید ہوئے ہیں(3) یعنی پورے ملک میں شہید ہونے والے پانچ ائمہ جمعہ میں سے، جو علمائے دین کے افتخارات کا حصہ ہیں،(4) دو ائمہ جمعہ تبریز شہر کے ہیں۔ یہ باتیں اہم ہیں، یہ بڑی نمایاں خصوصیات ہیں۔
معاشرے میں شہیدوں کی اخلاقی خصوصیات کو نمونۂ عمل بنا کر ان کی یاد کو زندہ رکھنے پر تاکید
جو بات میں نصیحت اور سفارش کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلے تو شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، یعنی شہیدوں کی یاد صرف ان کے واقعات کو بیان کرنا نہیں ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ تقوی، وہ ایثار، وہ شجاعت اور وہ وجود کا درخشاں گوہر جو شہید باکری جیسے افراد کو میدان میں کھینچ لاتا ہے، اسے بیان کیا جائے، پہنچایا جائے تاکہ وہ نئی نسل کو آئيڈیل دے۔ ہمارے جوان کو آئيڈیل کی ضرورت ہے اور سب سے اچھے آئيڈیل یہ ہیں۔ بعض قومیں، جن کے ہاتھ اس لحاظ سے بالکل خالی ہیں یا بڑی حد تک خالی ہیں، وہ آئيڈیل بناتی ہیں، بغیر وجود کے آئيڈیل گڑھتی ہیں۔ ہمارے سامنے تو یہ آئيڈیل موجود ہیں۔ شہید باکری کو صرف میدان جنگ میں نہیں دیکھنا چاہیے، محاذ کے پیچھے بھی دیکھنا چاہیے، تبریز یونیورسٹی میں بھی دیکھنا چاہیے، ان کی انقلاب سے پہلے کی سرگرمیوں کو بھی دیکھنا چاہیے، اس جذبے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ میں انقلاب سے پہلے مشہد میں شہید آقا مہدی باکری سے ملا تھا، جوشیلے، سمجھدار، دلچسپی لینے والے، واقعات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے۔ یہی باتیں سبب بنیں کہ بعد میں وہ جنگ میں، مقدس دفاع کے میدان میں اس طرح سے نکھرے، ابھر کر سامنے آئے اور دلوں کو اپنی طرف مائل کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ جذبہ لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ ہم اگر کوئي فلم بناتے ہیں، کوئي نظم لکھتے ہیں، کوئي کتاب تحریر کرتے ہیں، یادگار واقعات کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں نشر کرتے ہیں، شائع کرتے ہیں تو ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ جذبہ دوسروں تک پہنچے، یہ تعمیری جذبہ ہے۔ یہ پہلی بات ہوئي کہ شہیدوں کے خون کی گرمی کو ٹھنڈا نہ ہونے دیجیے، جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کی طرح، یعنی جس طرح ہر سال محرم میں ہوتا ہے، جب عاشورا کا دن آتا ہے تو گويا آپ سنہ اکسٹھ ہجری کے عاشورا کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں، واقعات آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، سننے والے کی نظروں کے سامنے شخصیتیں مجسم ہو جاتی ہیں، یہی چیز دفاع مقدس کے شہیدوں اور ان دس ہزاروں شہیدوں کے بارے میں بھی ہونی چاہیے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔
شہیدوں کے حالات و واقعات کو رقم اور محفوظ کرنے کے لیے ان کے اہل خانہ، رفقائے کار اور دوستوں سے استفادہ
دوسری بات یہ ہے کہ شہیدوں کے اہل خانہ کو نہ بھولیے۔ افسوس کہ بہت سے والدین دنیا سے گزر چکے ہیں، اپنے شہیدوں سے ملحق ہو چکے ہیں، اب جو لوگ ہیں، چاہے وہ شہیدوں کی بیویاں ہوں یا ان کے والدین ہوں، ان کی یادوں سے، ان کی باتوں سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح شہیدوں کے رفقائے کار اور دوستوں سے بھی، مثال کے طور پر جنگ کے دوران شہید باکری کے کافی رفقائے کار تھے جن میں سے بعض بحمد اللہ اس وقت حیات ہیں، صحت مند ہیں، آمادہ ہیں، انھوں نے میدان جنگ میں ان کی زندگي کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دیکھی ہے۔ شجاعت صرف جنگ کرنے میں نہیں ہوتی، شجاعت اپنے نفس پر کنٹرول میں، شجاعت بات کرنے میں، شجاعت بات نہ کرنے میں، شجاعت اقدام کرنے میں اور اقدام نہ کرنے میں بھی ہوتی ہے، یہ ساری چیزیں اہم ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے، پہچانا ہے، ایسے لوگوں سے استفادہ کیا جائے، ان سے انٹرویو لیا جائے، بات کی جائے، شہیدوں کے حالات حقیقی دستاویز کے طور پر ریکارڈ ہوں اور پہچانے جائيں۔ یہ دوسری بات ہوئي۔
شہیدوں کے عروج کی راہوں کی شناخت کی ضرورت
ایک اور بات یہ ہے کہ جب شہیدوں کی بات کی جائے تو ان چیزوں کو بھی متعارف کرایا جائے جنھوں نے ان کے عروج کی راہ ہموار کی۔ مثال کے طور پر لوگ یا وہ افراد جنھوں نے ابتدائي چنگاریوں کو وجود عطا کیا، جیسے شہید قاضی طباطبائي نے انقلاب کے معاملات میں، مثال کے طور پر 18 فروری 1978 کو وہ تھے جنھوں نے پہلی چنگاری پیدا کی، سب سے پہلے اقدام کیا، لوگوں کو اپنے مکان اور اپنی مسجد میں آنے کی دعوت دی اور اس دن کی باقی باتیں؛ مطلب یہ کہ وہ چیزیں واضح ہوں جنھوں نے راہ ہموار کی۔ قم کے واقعے کے بعد سب سے پہلا اقدام فلاں شہر اور فلاں شہر میں نہیں بلکہ تبریز میں کیا گيا، اس کی وجہ کیا ہے؟ یہاں کے لوگوں میں کیا خصوصیت ہے کہ وہ اس طرح کے جوانوں کو معرض وجود میں لاتے ہیں، اس طرح پرورش کرتے ہیں، اس طرح شہیدوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں؟ یہ چیزیں بہت اہم ہیں، یعنی قومی تشخص، ملی تشخص اور دینی تشخص۔ میں نے ایک بار ان ہی آذربائیجانی بھائيوں اور بہنوں کے اجتماع میں کہا تھا(5) کہ جب مرحوم ستار خان نے 'تحریک مشروطہ' میں اور اس دوران جو اقدامات انھوں نے کیے تھے، اس وقت ان کی جیب میں علمائے نجف کی تحریر موجود تھی، یعنی انھوں نے علمائے نجف سے استفتاء کیا تھا، سوال پوچھا تھا اور انھوں نے بھی انھیں جواب دیا تھا، وہ اس نیت سے آگے بڑھ رہے تھے، یہ بہت اہم ہے۔ آگے بڑھنے کی وجہ کیا ہے، محرّک کیا ہے، یہ واضح ہونا چاہیے، یہ اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر یہ کام ہو گيا تو پھر قدم بڑھتے رہیں گے۔
مقدس دفاع کے مؤثر اور نادر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنے کی اہمیت
31 عاشورا ڈویژن کا کردار تو واضح ہے، ایسی شخصیات تھیں جنھوں نے واقعی اپنی چمک دکھائي، میں سیکنڈ ٹیکٹکل ایئر بیس(6) کے رول کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا: جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہمارے جنگي طیاروں کے اس عظیم اقدام نے، جنھوں نے سیکنڈ ایئر بیس اور دوسرے بیسز سے، تھرڈ(7) اور فورتھ ایئر بیس(8) سے اڑان بھری تھی اور وہ بڑا کارنامہ انجام دیا تھا، جنگ کے پہلے ہی ہفتے میں یہ کام کر دیا تھا اور میں نے اسی وقت پارلیمنٹ میں جا کر اراکین پارلیمنٹ کو اس کی تفصیلات بتائي تھیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو قابل توجہ اور بہت اہم ہیں اور ان شاء اللہ انھیں ذہنوں میں باقی رہنا چاہیے، ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت ہو جانا چاہیے، مطلب یہ کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان اہم واقعات کو، ان مؤثر اور نادر اور بعض مواقع پر بے نظیر واقعات کو ایرانی قوم کے تاریخی حافظے میں ثبت کرنا چاہیے اور ہمارے جوانوں اور بچوں کو ان کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ البتہ اب تک ہم نے کسی حد تک تساہلی دکھائي ہے نتیجتا ہمارے بہت سے جوان، ہمارے بہت سے بچے، نمایاں شخصیات کو نہیں پہچانتے اور بہت سے اہم واقعات کا علم نہیں رکھتے، ہمیں ان چیزوں کو ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے اور اسی طرح کے دوسرے سرکاری تشہیراتی اداروں سے بھی اور ان وسائل کے ذریعے بھی جو آج لوگوں کے پاس اور ان کی دسترس میں ہیں، نشر اور شائع کرنا چاہیے۔
میں دعاگو ہوں کہ خداوند عالم آپ سبھی کو توفیق عطا کرے اور آپ اس عظیم کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائيں اور ان شاء اللہ مستقبل میں، خراج عقیدت کی ان کانفرنسوں اور نشستوں کے درمیان کا وہ فاصلہ، جو آج اور پچھلی کانفرنس کے درمیان کا ہے، مزید کم ہو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کی ابتداء میں مشرقی آذربائيجان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور تبریز کے امام جمعہ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم اور مشرقی آذربائيجان صوبے میں سپاہ عاشورا کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری بریگیڈیر جنرل اصغر عباس قلی زادہ نے رپورٹیں پیش کیں۔
(2) سورۂ حشر، آيت 19، وہ اللہ کو بھول گئے تواللہ نے ان کو اپنا آپ بھلا دیا۔
(3) شہید آيت اللہ سید محمد علی قاضی طباطبائي اور شہید آیت اللہ سید اسد اللہ مدنی
(4) شہید آیت اللہ محمّد صدوقی، شہید آیت اللّہ عطاء اللّہ اشرفی اصفہانی، شہید آیت اللّہ سیّد عبد الحسین دستغیب، شہید آیت اللّہ سیّد محمّد علی قاضی طباطبائی اور شہید آیت اللّہ سیّد اسد اللّہ مدنی
(5) مشرقی آذربائيجان صوبے کے عوام سے خطاب (16/2/2013)
(6) شہید فکوری سیکنڈ ایئر بیس، تبریز
(7) شہید نوژہ تھرڈ ایئر بیس، ہمدان
(8) شہید وحدتی فورتھ ایئر بیس، دزفول